سائنس اور مذہب کے تعلق پر، ایک غلط فہمی کا ازالہ

(عقلیت پرستی اور تجربیت پسندی کے فرق سے ناواقفیت کی بنا پر علم الکلام پر ہونے والے واحد مشہور اعتراض کا جواب۔ شہزاد احمد کی فرمائش پر)

سائنس کو مذہب سے الگ ماننے والوں کی عقل پر ماتم کے سوا کچھ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ جب سائنس نہیں تھی تو مذہب کی ذمہ داری تھی، سائنس کے حصے کا کام سنبھالنا بھی، اور جب سائنس پیدا ہوگئی تو مذہب کے مدلولات بھی اپنی عالمگریت میں ایمان کے درجے سے بلند ہوکر یقین کے درجے میں داخل ہونا شروع ہوگئے۔ اگستے کومت والی بات کہ کسی بھی شخص کی ذہنی نشوونمأ کا سفر، یوں طے ہوتا ہے کہ پہلے درجے میں عقل ایمان کے تابع اور اس سے اگلے درجے میں ایمان عقل کے تابع ہوجاتاہے۔ یا اقبال والی بات کہ پہلے اعتقادی، پھر استشہادی اور پھر اجتہادی مقامات آتے ہیں اہلِ ایمان کی زندگی میں۔ سائنس کا کام ہے فطرت کا مطالعہ۔ مذہب کا کام فطرت کا مطالعہ نہیں ہے۔ مذہب کے رویّے سے معلوم ہوتاہے جیسے فطرت کا علم اس کے پاس پہلے سے موجود ہے اور یہی مذہب کا دعویٰ بھی ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ مذہب پر لازم ہے کہ وہ فطرت سے متعلق اپنا سارے کا سارا علم آپ کو ایک ہی بار میں کھول کر بیان کردے۔ میں نے کچھ ملحدین کو یہ کہتے بھی سناہے، ’’ کیا رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو یہ علم تھا کہ پانی، ہائیڈروجن اور آکسیجن سے مل کر بنتاہے؟‘‘ مذہبی نمائندوں کی طرف سے ایسے احمقانہ سوالوں کے جواب میں کہا جاتاہے،

’’جی ہاں! معلوم تھا! لیکن آپ نے بتانا ضروری نہیں سمجھا‘‘۔ کون سی سائنس ہے جو اس دعوے کو جھوٹا ثابت کرسکتی ہے؟ البتہ اس دعوے کو سچا ثابت کرنے والی سائنس ہمیشہ موجود رہی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ مزید دعاوی کو بھی سچا ثابت کرتی رہتی ہے۔

میری نظر میں یہ نہایت سطحی اعتراض ہے۔ یعنی مذہب کو سائنس کے ساتھ جوڑنے پر جو اعتراض موجود ہے وہ سطحی اعتراض ہے۔ سائنس کی تعریف کو دیکھا جائے تو مذہب خود ایک سائنس ہے۔ لیکن اس موضوع کو چھیڑنے سے بات کا رخ مُڑجائے گا۔ البتہ اس پر ’’مذہب کی سائنس‘‘ کے نام سے میرا مضمون موجود ہے۔ یہ اعتراض سطحی کیوں ہے ؟ اس لیے کہ جن بڑے دماغوں یعنی کانٹ اور غزالی کی باتوں سے چھوٹے چھوٹے لونگ اُٹھا کر بھاگنے والے چوہے جب اپنی پنسار کی دکان کھولتے ہیں تو یہ معمولی سا فرق جاننے کی طرف ان کا دھیان ہی نہیں جاتا کہ مذہب کو عقلیت سے جدا کرنے والے یہ دونوں بڑے دماغ بے شک جیت گئے اور عقلیت پسند ہار گئے لیکن کیا وہ جنگ ’’عقلیت پسندوں یعنی ریشنلسٹس‘‘ کے ریشنلزم کے خلاف نہ تھی؟ ایسا تو کبھی بھی نہیں ہوا کہ تجربیت پسندوں نے مذہب کو رد کیا ہو؟ کبھی بھی نہیں۔ نہ ہی غزالی سائنسدا تھا اور نہ ہی کانٹ۔ ان دونوں سے پہلے کے تمام فسلفیوں کی بے رُوح عقلیت پرستی کو ان دونوں نے مل کر تباہ کردیا۔ یہ دونوں گئے تو پھر کوئی پیدا نہ ہوسکا جو آج تک عقلیت کو مذہبیت کے ساتھ اس طرح جوڑ سکے جس طرح عہدِ وسطیٰ کے متکلمین جوڑا کرتے تھے۔

میں تو پورے زور و شور سے یہ آواز اُٹھانے کا قائل ہوں کہ علم الکلام کی پرانی تعریف بدل کر اس علم کی نئی تعریف متعین کی جائے جس میں واضح ہو کہ ’’اپنے عقائد کو عقل کے ذریعے دلائل فراہم کرنے کا نام علم الکلام نہیں ہے بلکہ اپنے عقائد کو سائنسی تجربیت کی روشنی میں بہتر سے بہتر انداز میں سمجھنے کا نام علم الکلام ہے‘‘ ۔

مجھے شدید حیرت ہوتی ہے جب میں دیکھتاہوں کہ اچھے خاصے عاقلین کو یہ نظر نہیں آتا کہ غزالی اور کانٹ کے آرگومنٹ میں چنداں فرق نہیں اور نہ ہی ان کے نتائج میں۔ تو پھر یہ سوال کہ سائنس کو مذہب سے الگ کردیا جائے پیدا ہی کیسے ہوسکتاہے؟ کانٹ کے بعد بقول اقبال، ’’عیسائیت نے اپنے مذہب سے عقائد کا نظام ہی نکال باہر کیا‘‘ ظاہر ہے جب مذہب سے عقائد کا نظام نکل جائے گا تو اس کی اخلاقیات کی افزائش میں واحد رکاوٹ دور ہوجائے گی۔ کانٹ کا آرگومنٹ مکمل ہوا تو ’’سنتھیٹک اے پری آری‘‘ نالج یعنی خالص سائنس کی اہمیت دوچند ہوگئی۔ اگر غزالی کی وجہ سے ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوسکا تو اس کی واحد وجہ غزالی کا ذاتی عمل اور کردار تھا۔ اگر وہ بھی کانٹ کی طرح عقلیت کا قتل کرنے کے بعد حسی تجربے کی اہمیت کو اختیار کرلیتا یا قران ہی کے احکامات پر چلتے ہوئے کائنات کو تسخیر کرنے کا درس دیتا رہتا تو ہمارے ہاں بھی ویسی ہی ترقی ہوئی ہوتی۔ یہ امام موصوف کا ذاتی کردار ہے جس نے ہمارے عقلیت پرستوں کی تباہی تو کردی لیکن انہوں نے خود یعنی امام موصوف نے خود ’’وردو وظائف‘‘ کی دنیا میں پناہ لے لی۔

چھوٹی سی بات نہ سمجھ پانے کی وجہ سے کتنا بڑا بلنڈر کرتےہیں ہمارے دوست! دوستو! عقلیت کے ذریعے، خدا اور عقائد کو ثابت نہیں کیا جاسکتا لیکن تجربیت کے ذریعے کیا جاسکتاہے۔

ساری خرابی اس وجہ سے ہے کہ اِن احباب کو عقلیت اور تجربیت کا فرق معلوم نہیں ، یہ دو متضاد علوم کو ایک ہی علم سمجھتے ہیں۔ یعنی سائنس کے علم کو بھی عقلی علم سمجھتے ہیں حالانکہ یہ حسی علم ہے۔ عقلی اور حسی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ایک استخراجی ہے تو دوسرا استقرائی۔ ایک ریشنل ہے تو دوسرا امپریکل۔ ایک حواسِ خمسہ کا دشمن ہے تو دوسرا چلتاہی حواسِ خمسہ پر ہے اور قران نے سمع و بصر جیسے حواس کا اتنی بار ذکر کیا ہے کہ خدا کی پناہ! قران نے سائنس کی رٹ لگائی تو اس لیے کہ سائنس حسی اور تجربی علم ہے۔ میں نے اس دن بھی کہا تھا کہ قران نے اپنی آیات کو بھی آیات کہا ہے اور کائنات کی نشانیوں کو بھی آیات کہا ہے۔ یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ قران کائنات کی طرف توجہ دلائے بغیرکسی ایمان والے کو لے کر آگے بڑھنا ہی نہیں چاہتا۔

فلاسفی آف سائنس کے بابا آدم اگستے کومت نے کہا تھا،

’’اگر یہ درست ہے کہ ہر نظریہ، مشاہدے میں آنے والے حقائق کی بنیاد پر پرکھا جائے تو یہ بھی اُتنا ہی درست ہے کہ حقائق کا مشاہدہ بغیر کسی نظریہ کے ممکن ہی نہیں ہے‘‘

معلوم ہوتاہے کومت بھی علم الکلام کے اَن پڑھ دشمنوں کو اپنی سطح پر جواب دے رہا تھا۔ کیا اس سے مضبوط دلیل دی جاسکتی ہے؟ میں نہیں سمجھتا کہ کومت کی اس بات کے بعد کوئی جواز باقی بچ جاتاہے کہ نظریہ کو ذہن میں رکھ کر حقائق کی طرف قدم بڑھانے کے عمل کو طنزیہ نگاہوں سے دیکھا جائے۔

بس ذہن میں رکھنے کی بات یہ ہے کہ قران کو تجربیت پسندی کے ساتھ بڑا لگاؤ ہے۔ بقول اقبال اس طرح مؤمن جزواً جزواً حقیقتِ سرمدیہ کی طرف بڑھتاہے۔ بس یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ عقلیت پرستی، تجربیت پرستی کے الٹ ہے اور کانٹ نے اگر کچھ کمال کیا تو وہ یہ ہے کہ ’’عقلیت کے ساختہ پرداختہ طومار کے زور پرمابعدالطبیعات کو ثابت کرنا ناممکن ہے‘‘۔ یادر کھنے کی بات ہے تو فقط اتنی ہے کہ تجربیت پسندی حواسِ خمسہ پربھروسہ کرکے علم حاصل کرنے کا نام ہے اور عقلیت پرستی حواسِ خمسہ سے نفرت کرکے علم حاصل کرنے کا نام ہے۔

ادریس آزاد

مذکورہ بالا مضموں مدیر: قاسم یادؔ نے شائع کیا۔

قاسم یاد گزشتہ بیس سال سے ادریس آزاد کے ساتھ مختلف علمی ادبی سرگرمیوں میں یوں موجود رہے ہیں جیسے درخت کےساتھ مالی۔انہوں نے ادریس آزاد کے قلم کی سیاہی کو کبھی خشک نہیں ہونے دیا۔ وہ خود ایک نہایت باذوق انسان ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے ویب ڈویلپر ہیں۔ ادریس آزاد کے بقول اُن کی تمام کُتب کی اوّلین کتابت قاسم یاد نے کی ہے ۔ یعنی ادریس آزاد نے اپنی کُتب خود نہیں لکھیں بلکہ اِملا کروائی ہیں۔ اصل نام قاسم شہزاد۔ قلمی نام قاسم یاد۔ قاسم یاد اب نہیں لکھتے، لیکن کبھی لکھا کرتے تھے۔ استفسار پر فرماتے ہیں، ’’میرے ابھی پڑھنے کے دن ہیں لکھنے کے نہیں‘‘۔ تحریر: محمد ریاض امین